بنگلہ دیش میں حالیہ دنوں میں عوامی لیگ کے وزراء اور کارکنان کی رہائش گاہوں، دفاتر، اور شیخ مجیب الرحمٰن سے منسوب مقامات پر حملوں، توڑ پھوڑ، اور آتش زنی کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں۔ بنگلہ دیش میں عوامی لیگ رہنماؤں کے گھروں پر حملوں کا سلسلہ پھیلتا جا رہا ہے۔ ان واقعات کا آغاز اُس وقت ہوا جب معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے جلاوطنی سے اپنے حامیوں سے خطاب کرنے کا اعلان کیا۔
اس اعلان کے بعد مظاہرین نے ڈھاکہ میں شیخ مجیب الرحمٰن کی تاریخی رہائش گاہ، جو بعد میں میوزیم میں تبدیل کی گئی تھی، پر حملہ کر کے اسے نذر آتش کیا۔
اس کے علاوہ، ملک کے دیگر حصوں جیسے کھلنا، چٹاگانگ، سلہٹ، اور رنگ پور میں بھی عوامی لیگ کے رہنماؤں کے گھروں اور دفاتر پر حملے کیے گئے۔ کھلنا میں شیخ حسینہ کے چچا کے گھر، جو ’شیخ باری‘ کے نام سے مشہور تھا، کو بھی مسمار کیا گیا۔ مقامی صحافیوں کے مطابق، طلبہ تحریک کے رہنماؤں اور کارکنوں نے اس گھر میں توڑ پھوڑ کی اور بعد میں بلڈوزر کے ذریعے اسے منہدم کر دیا۔
بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب کے گھر کو مظاہرین نے آگ لگا دی، بلڈوزر بھی چلا دیئے
ان حملوں کے دوران، عوامی لیگ کے سابق وزیر طفیل احمد کی بھولا میں واقع رہائش گاہ کو بھی نذر آتش کیا گیا۔ مقامی لوگوں کے مطابق، مظاہرین نے ان کی رہائش گاہ کے سامنے جمع ہو کر حکومت مخالف نعرے لگائے اور بعد میں عمارت میں توڑ پھوڑ کر کے فرنیچر کو آگ لگا دی۔
ان پرتشدد واقعات کے بعد، شیخ حسینہ واجد نے اپنے والد اور بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمٰن کے گھر کو نذر آتش کیے جانے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ عمارت کو گرا سکتے ہیں لیکن تاریخ کو مٹا نہیں سکتے.‘
بنگلہ دیش نے درسی کتب بدل دیں، آزادی کا سہرا مجیب سے چھن گیا
ان واقعات کے پس منظر میں، بنگلہ دیش میں گزشتہ سال اگست میں طلبہ کی جانب سے امتیازی سلوک کے خلاف شروع ہونے والی تحریک کے نتیجے میں شیخ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا، اور وہ ملک چھوڑ کر بھارت چلی گئی تھیں۔ اس کے بعد سے ملک میں عبوری حکومت قائم ہے، لیکن سیاسی کشیدگی اور پرتشدد واقعات کا سلسلہ جاری ہے.