شام میں مقامی بغاوتیں شروع ہونے سے صدر بشارالاسد کی اقتدار پر گرفت کو شدید جھٹکا لگا ہے۔
شام میں بشارالاسد مخالف فورسز نے جنوبی شہر درعا پر قبضہ کر لیا ہے، یہ ایک ہفتے کے اندر شامی حکومتی فورسز کے ہاتھوں کھو جانے والا چوتھا شہر ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق فوج نے ایک معاہدے کے تحت درعا سے دستبرداری پر رضامندی ظاہر کی جس کے تحت فوج کے اہلکاروں کو دمشق کے شمال میں تقریباً 100 کلومیٹر (60 میل) کے فاصلے پر محفوظ راستہ فراہم کیا گیا۔
یہ اطلاعات شمالی شام میں تحریر الشام کی قیادت میں حُمص شہر کے مضافات تک پہنچنے کا دعویٰ کرنے کے بعد سامنے آئی ہیں۔
درعا پر قبضہ اس وقت ہوا جب شامی حکومت مخالف فورسز نے جمعہ کو دیر گئے حُمص کے مضافات تک پہنچنے کا دعویٰ کیا جو کہ دارالحکومت کو بحیرہ روم کے ساحل سے جوڑنے والا اسٹریٹجک شہر ہے۔
باغیوں کی حُمص کی جانب پیش قدمی
علاوہ ازیں جنگجوؤں نے ڈیرہ صوبے میں فوجی اڈے پر بھی قبضہ کرلیا جبکہ باغیوں کی حُمص کی جانب پیش قدمی جاری ہے۔ واضح رہے کہ حُمص ایک علاقہ ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر بشار الاسد فورسز خُمص پر حملہ روکنے میں ناکام رہے تو کرد فورسز کا اگلا ہدف دمشق ہوگا۔
موجودہ حالات میں صدر بشار الاسد اور ان کے حامی روس اور ایران کے لیے مزید مشکلات بڑھ رہی ہیں۔
واضح شام کا ایک شہر حلب پہلے ہی باغیوں کے قبضے میں ہے۔ شمال مشرقی علاقے حلب میں موجود بشارالاسد مخالف فورسز تحریر الشام جس کو فری سیرین آرمی بھی کہاجاتا ہے، نے حالیہ دنوں میں تیزی سے پیش قدمی کی اور حما پر قبضہ کرلیا اور اب خُمص کے گرد گھیرا تنگ کررہی ہے۔
شامی باغی بشارالاسد کے محل پر قبضہ کرنے میں کامیاب
حمص اسٹریٹجک اعتبار سے حما اور حلب سے زیادہ اہم ہے
حمص اسٹریٹجک اعتبار سے حما اور حلب سے زیادہ اہم ہے کیونکہ اس جے مغرب میں وہ علاقے واقع ہیں جنھیں بشار الاسد کے خاندان کا گڑھ کہا جاتا ہے جبکہ اس کے جنوب میں شامی دارالحکومت دمشق واقع ہے۔
ہیئت تحریر الشام برسوں سے شمال مغربی صوبے ادلب میں اپنی طاقت کو بڑھا رہا تھا اور گذشتہ ہفتوں میں اس کی کامیابیوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ بشار الاسد حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔