کراچی میں نوجوان مصطفیٰ عامر کے اغوا اور قتل کے ہائی پروفائل کیس کے ملزم ارمغان کو سندھ ہائیکورٹ میں پیش کردیا گیا ہے، مرکزی ملزم ارمغان کو ہتھکڑی لگا کر اور چہرہ ڈھانپ کر سخت سیکیورٹی میں عدالت پہنچایا گیا۔ جبکہ اس کے والد کامران قریشی بھی عدالت پہنچے۔
عدالت میں قائم مقام پراسیکیوٹر جنرل سندھ سمیت دیگر متعلقہ فریقین بھی پیش ہوئے۔
عدالت میں داخل ہوتے ہی کامران قریشی نے اپنے بیٹے کو دیکھ کر کہا، ’تم بالکل بھی ٹھیک نہیں لگ رہے ہو‘۔ جس پر ملزم ارمغان نے سر ہلا کر ہاں میں جواب دیا۔
میرا بیٹا بے قصورہے، مصطفٰی عامر کو شیراز نے قتل کیا، ارمغان کے والد کا دعویٰ
ملزم کے والد کامران قریشی عدالت میں اپنے بیٹے کے لیے پھل لے کر پہنچے اور کہا، ’میرے بیٹے کو مارا جا رہا ہے، اس کے لیے پھل لایا ہوں۔‘
ملزم ارمغان کا تشدد کا الزام
سندھ ہائیکورٹ میں انسداد دہشتگردی عدالت کی جانب سے ملزم کے جسمانی ریمانڈ نہ دیے جانے کے خلاف محکمہ پراسیکیوشن کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کسٹڈی کہاں ہے؟ جس پر ارمغان کو پیش کردیا گیا۔
اس کے بعد ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے ایف آئی آر پڑھ کر سنائی۔ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا کہ چھ جنوری کو مصطفیٰ عامر کو اغوا کیا گیا اور مقدمہ نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کیا گیا، درخشاں تھانے کے پولیس افسر نے مصطفیٰ کی والدہ کا بیان ریکارڈ کیا، 13جنوری کو تاوان کی کال کے بعد مقدمہ اے وی سی سی کو منتقل ہوا۔
ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا کہ ملزم سے مغوی کا ایک موبائل فون برآمد کیا گیا۔
اس دوران عدالت نے استفسار کیا کہ ملزم پہلے کب مقدمات میں مفرور تھا؟ جس پر ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا کہ ملزم کا سی آر او پیش کیا گیا ہے، پانچ مقدمات ملزم کے خلاف درج ہیں، ملزم بوٹ بیسن تھانے کے بھتے کے کیس میں مفرور ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ پولیس کسٹڈی کی درخواست کس بنیاد پر مسترد کی گئی؟ کیا تشدد کیا گیا؟ جس پر ملزم ارمغان نے کہا کہ مجھ پر تشدد کیا گیا۔
عدالت نے کہا کہ دکھائیں نشانات کہاں ہیں، ملزم کی شرٹ اتاریں اور دکھائیں۔ جس کے بعد ملزم کی شرٹ اتار کر دکھائی گئی تو ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ تشدد کا کوئی نشان نہیں ہے۔
مصطفیٰ قتل کیس: ارمغان نے پولیس کے ساتھ مقابلہ کرکے بالکل درست کیا، والد
عدالت نے کہا کہ اگر تشدد کی شکایت تھی تو میڈیکل چیک اپ کا آرڈر کرتے۔
ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل منے کہا کہ ریمانڈ پراسیکیوشن کا حق تھا، کیا ملزم نے جیل میں درد کی شکایت کی ہے؟ کیا جیل میں علاج یا معائنے کی درخواست دی تھی؟
جس پر ملزم ارمغان نے کہا کہ میں شاک میں تھا۔
ملزم ارمغان عامر مصطفیٰ قتل سے مکر گیا
ملزم ارمغان عدالت میں مصطفیٰ عامر کے قتل سے مکر گیا۔ ارمغان نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ میں نے مصطفیٰ کو نہیں مارا مجھے پھنسایا جارہا ہے۔
صحافی نے جب ملزم ارمغان سے سوال کیا کہ پولیس پر فائرنگ کیوں کی؟ تو جواب میں اس نے کہا کہ میرے گھر پر ڈکیتی مار رہے تھے۔
اس دوران ملزم ارمغان صحافیوں سے بدتمیزی بھی کی۔