پی ٹی آئی کے بعد حکومت نے بھی مذاکراتی عمل ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے مذاکرات کے خاتمے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اگر پی ٹی آئی اپنے قیدیوں کی رہائی چاہتی ہے تو واحد راستہ یہ ہے کہ وزیراعظم اور صدر سے سزائیں معاف کرنے کی سفارش کریں۔
سعودی اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے چارٹر آف ڈیمانڈ میں کئی ایسے مطالبات تھے جن کی بنیاد پر اعتماد سازی ہو سکتی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ جوڈیشل کمیشن کے مطالبے پر حکومت نے سرخ لکیر (ریڈ کراس) نہیں کھینچی تھی۔ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی ایک منفرد عجوبہ ہے، جس کے ڈی این اے اور خمیر میں مذاکرات شامل ہی نہیں۔
پیکا ایکٹ سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے عرفان صدیقی نے کہا کہ انہوں نے وزیراعظم سے بات کی ہے کہ صحافیوں کے تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون میں ضروری ترامیم کی جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اس معاملے پر کام کر رہی ہے اور صحافیوں کی آواز کو سنا جائے گا۔
پیکا قانون متنازع ہوگیا، مشورہ لینا چاہیے تھا، عرفان صدیقی
سینیٹرعرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ مانتاہوں پیکاقانون سازی میں حکومت نے جلدبازی کی، پیکا قانون متنازع ہوگیا مشورہ لینا چاہیے تھا، پیکامعاملہ ایسانہیں جس کی اصلاح نہ ہوسکے۔
نجی ٹی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سینیٹرعرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی والے23جنوری کوفیصلہ کرچکےتھے، پی ٹی آئی نے اپنی ڈیڈلائن کا انتظارنہیں کیا، وہ فیصلہ کیے بیٹھےتھےمذاکرات کوآگےلےکرنہیں جانا۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ اسی لیے پی ٹی آئی بغیربتائےمذاکرات سےنکل گئی، وہ حرف آخرلے کرآئے کہ یہ مطالبات ہیں، ہم نے اس حوالے سے بڑی لچک رکھی تھی۔
انھوں نے کہا کہ وہ مذاکرات میں غلطی سےآئے، یہ ان کاایریاآف ایکسپرٹیزہےہی نہیں، وہ اب اپنی اسپیشلائزیشن کی جگہ پرچلے گئے۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ ان کی اسپیشلائیزیشن حملے کرنا، دھرنےدینااورپٹرول بم لاناہے، وہ حملےکریں، ریاست اپنےشہریوں اور وقارکادفاع کرےگی۔
متنازع پیکا قانون کے حوالے سے انھوں نےکہا کہ مانتاہوں پیکاقانون سازی میں حکومت نےجلدبازی کی، پیکاقانون متنازع ہوگیا مشورہ لیناچاہیےتھا، پیکامعاملہ ایسانہیں جس کی اصلاح نہ ہوسکے۔ قائمہ کمیٹی داخلہ میں کہا تھا کہ جلدی نہ کریں۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ اگر10،15 دن کی تاخیرہوجاتی تو قیامت نہیں آجاتی، مشاورت ہوتی تو بہت سے نکات واضح ہوجاتے، صحافیوں کے تحفظات بھی دورکیے جاسکتے تھے۔ لیکن سیرحاصل مشاورت نہیں ہوئی۔
رہنما مسلم لیگ ن نے مزید کہا کہ اب بھی وقت ہے صحافی تنظیموں کے ساتھ بیٹھا جاسکتا ہے، پیکا قانون میں ابھی بھی ترمیم ہوسکتی ہے۔ کامران مرتضی کے علاوہ کسی نے مخالفت میں آوازنہیں اٹھائی۔