سابق شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے سے ایک سال قبل تیزی سے تبدیلی دیکھنے میں آئی، جس میں سعودی عرب سے ڈیل اور اور ایرانی مدد لینے سے انکار کی مختلف چیزیں شامل ہیں۔
واضح رہے کہ شام میں اسد خاندان کے 50 سالہ دور اقتدار کا سورج غروب ہوگیا۔ باغی گروپ تحریر الشام نے بشارالاسد کا تختہ پلٹ دیا۔ شامی فوج کی اکثریت نے عراق میں پناہ لے لی۔ فورسز نے کسی قسم کی مزاحمت نہیں کی باغیوں نے دمشق ایئرپورٹ اور سرکاری ٹی وی کا کنٹرول بھی سنبھال لیا۔ جبکہ بشار الاسد اپنی فیملی کے پاس ماسکو پہنچ گئے جہاں انہیں روس نے سیاسی پناہ دی ہے۔
سوشل میڈیا پوسٹ کے مطابق اسد کی حالیہ تبدیلی سے متعلق بہت سی چیزیں شامی عوام کے علم سے پوشیدہ رکھی گئیں۔ اس حوالے سے دعویٰ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کی اس پوسٹ میں کیا گیا۔
پوسٹ کے مطابق گزشتہ برس یکم مارچ 2023 کو بشار الاسد نے متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا تھا، مئی 2023 کو سعودی عرب کے دورے پر پہنچے جہاں انہوں نے عرب لیگ کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی، اور دوسرے ممالک سے کم اثر و رسوخ کے ساتھ خطے میں تبدیلیاں لانے کے بارے میں بات کی۔
معزول شامی صدر بشار الاسد نے روس میں سیاسی پناہ لے لی
دسمبر 2023 شام میں ایرانی آرمڈ فورسز (Islamic Revolutionary Guard Corps) آئی آر جی سی کے اعلیٰ ترین کمانڈر سید رضی موسوی کو دمشق میں اسرائیل کے ہاتھوں قتل کیا گیا۔
دسمبر 2023 کے بعد ایران اور IRGC کی سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کردی گئیں۔
بعد ازاں مئی 2024 ایرانی رہنما کی جانب سے سعودی/ متحدہ عرب امارات کے وعدوں کے بارے میں خبردار کیا گیا، اسے ختم کرنے کی کوششیں کی گئیں۔
رواں برس جولائی 2024 میں حزب اللہ کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندیاں لگیں پھر رواں برس ستمبر میں اسرائیل کے ہاتھوں حزب اللہ کے کمانڈروں کا قتل ہوا۔ 9 ستمبر 2024 کو حزب اللہ کے رہنما سید حسن نصر اللہ کا قتل ہوا۔
شام میں پھنسے پاکستانیوں کے بیروت کے راستے انخلاء کی کوششیں، ہوٹلوں میں محدود
اکتوبر 2024 ایران نے بشار الاسد کو ادلب میں دہشت گردی کی سازش سے خبردار کیا اور حمایت کی پیشکش کی لیکن انہوں نے ایران کو نظر انداز کیا۔
11 نومبر 2024 میں آیت اللہ خامنہ ای کے مشیروں کے سربراہ لاریجانی نے دمشق میں اسد سے ملاقات کی تاکہ ایرانی انٹیلی جنس کے بعد دہشت گردوں کی طرف سے ”آنے والے خطرے“ پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ اسد نے خطرے کو کم کیا اور تعاون کرنے سے انکار کردیا۔
30 نومبر 2024 میں سابق شامی صدر اسد کی فوج حلب سے پیچھے ہٹ گئی۔
بعد ازاں اتوار یکم دسمبر 2024 کو ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی دمشق کے دورے پر گئے جہاں انہوں نے بشار الاسد کی حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان سیاسی بات چیت کے انعقاد کی اہمیت پر زور دیا تھا۔
اسرائیل کے شام کے تین بڑے فضائی اڈوں سمیت 100 سے زائد ملٹری اہداف پر حملے
منگل 3 دسمبر 2024 کو ایران نے شام کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے جنرل جواد غفاری کو بھیجا، جنہیں ”دوسرا سلیمانی“ بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اطلاع دی کہ اسد کی فوج بری طرح ناکام ہو رہی ہے اور بظاہر اسد خود بھی جوابی کاروائی میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
پھر 6 دسمبر 2024 کو اسد نے مبینہ طور پر ایران سے ملنے سے انکار کیا۔ اور ہفتہ 7 دسمبر 2024 کو شامی باغی شام میں داخل ہوئے اور دمشق پر قبضہ کر کے بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ بشار الاسد شام سے فرار ہو کر روس کے شہر ماسکو پہنچ گئے جہاں انہیں سیاسی پناہ دی گئی۔
اتوار 8 دسمبر 2024 کو شام میں اسد خاندان کے 50 سالہ دور اقتدار کا سورج غروب ہوگیا۔